فیضی نقش اور درخت
_____________
ہماری دنیائے مصوری کے ایک بہت بڑے نام جمیل نقش صاحب کا آج 25 دسمبر یوم پیدائش ہے ۔
آج ان کو یاد کرنے کے لئے میں بات کروں گا پہلے فیضی رحمین کی ایک پینٹنگ سے ، جیسے کہ گزشتہ دنوں بیگم عطیہ اور فیضی رحمین کی زندگی کے حوالے سے ایک مضمون تحریر کیا ہے ، جس میں ابھی فیضی رحمین صاحب کے کام پر بات کرنا باقی ہے ۔
اس کے لیے کچھ تیکنیکی معلومات پر مبنی مٹیریل نہیں مل پا رہا لیکن فیضی کی ایک پینٹنگ ، جس پر دو پہلوؤں سے بات ہو گی پہلا اس کامختصر بصری تعارف اور دوسرا اسے دیکھتے ہوئے میری یاد میں محفوظ، جمیل نقش صاحب سے میری پہلی ملاقات میں ہونے والی ایک گفتگو کے حوالے سے ہے ۔ 1913 میں کاغذ پر آبی رنگوں سے بنائی گئی یہ پینٹنگ ، گو کہ اپنے دور اور تاریخی پس منظر کے حوالے سے بہت اہم ہے جس پر دوسرے مضمون میں الگ سے بات ہوگی جیسے کہ اپنے ٹائٹل ، Raagni Todi Goddess Tune . 1913

اور واضح منظر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ برصغیر کی کلاسیکل موسیقی میں سے راگ ٹوڈی کی متھ یا تاثرات بیان کر رہی ہے ۔
ایک خوبصورت دوشیزہ اپنے میوزکل انسٹرومنٹ شائد وینا پر کوئی ایسی دھن بجا رہی ہے جسے سننے کے لیے ہرن اکٹھے ہو رہے ہیں ۔ پس منظر کے دو درخت اپنے اندر گہری معنویت لیے ہوئے ہیں ٹوڈی صبح کا راگ ہے اور اپنے اندر خوشی اور خوش گواریت کا احساس رکھتا ہے ۔
ایک سرسبز لہلہاتا ہوا درخت اسی کی وضاحت دے رہا ہےجب کہ دوسرا درخت بید مجنوں کی طرح شاخیں جھکائے راگ ٹوڈی کو اگر شام کو گایا جائے تو اس کی اداس اور غمگین کیفیت کو ظاہر کر رہا ہے ۔
لیکن مجھے اس پینٹنگ سے جمیل نقش صاحب سے اپنی پہلی ملاقات یاد آگئی ۔
جمیل نقش صاحب اپنی پینٹنگ کو ہی ڈیزائن کرنے میں بہت بڑے مصور نہیں بلکہ وہ اپنے روز مرہ کے معمولات ،ملاقات اور سامنے بیٹھے ملاقاتی کے مشاغل و موضوعات کو بھی دوران گفتگو ترتیب دینے کا فن جانتے تھے ۔
چاہے وہ کوئی مجھ جیسا طالب علم درجہ کا ہی فرد کیوں نہ ہوتا ہو وہ صرف اپنی بات نہیں کہتے تھے بلکہ سامنے والے کی علمی و عقلی سطح اور اس کے شعبے کی تکنیکی معلومات کے دائرے کے مطابق بھی بات کرتے تھے ۔
جس سے سامنے والا ان کی شخصیت کے اثر یا غیرضروری تناؤ سے باہر نکل کر بھی بات کرتا میں انہیں اپنا کام دکھانے کے لیے کچھ چھوٹے سکپچرز اور ایک آرکیٹیکچرل اورنامنٹ لے کر گیا ، یہ وہ دور تھا جب پاکستان مصوری میں ایسے مقام پر تھی کہ اس میں آرکیٹیکچرل اورنامنٹ کو مصوری کا حصہ نہیں سمجھا جا رہا تھا ۔
اب میں اسے لے کر ہی کیوں گیا یہ ایک الگ کہانی ہے خیر غیر متوقع طور پر جمیل نقش صاحب نے اس اورنامنٹ کو پسند کرتے ہوئے تعریفی انداز میں اثبات میں سر ہلایا اور دوسری مضبوط تعریف کے طور پر قریب بیٹھے ایک صاحب کی طرف وہ کام بڑھا دیا اور مجھ سے سوال کیا ! آپ نے مختلف ادوار کے اورنامنٹ اسٹائلز کو سٹڈی کیا ہے ؟
میں نے انہیں جواب میں بتایا کے پینٹنگ اور مجسمہ سازی تو میں نے اپنے والد ناظرحسین صاحب سے سیکھی لیکن اورنامنٹ بس انہیں دیکھ دیکھ کر ہی کسی ودیعت شدہ ہنر کی طرح سے کر لیتا ہوں اس پر جمیل نقش صاحب نے مجھے ایک قصہ سنایا ، وہ آپ سے بھی شئیر کرتا ہوں ۔

پرانے وقتوں میں موسیقی کے ایک گرو گیانی اپنے شاگردوں کے ساتھ ایک جنگل سے گزرتے ہوئے تھک کر قیام پذیر ہوئے تو تھوڑی دیر میں انہیں کسی گائیکہ کے بے حد پر تاثر الاپ کی آواز سنائی دی گرو جی کے سب شاگرد بے اختیار اس آواز کی طرف لپکے تو دیکھا کہ ایک خوبصورت دوشیزہ اپنے اطراف سے بے خبر جھولا جھولتے ہوئے کوئی نامعلوم راگ گا رہی ہے اور ارد گرد بہت سے جنگلی جانور سر جھکائے بیٹھے اسے سننے میں محو ہیں ۔
یہ دیکھ کر گرو کے تمام بالک حیران تو ہوئے ساتھ مایوس اور پریشان بھی ہو گئے اور اسی حالت میں ہاتھ جوڑ کر اپنے گرو سے کہنے لگے کہ ہماری تو عمر گزر گئی سیکھنے میں یہاں تک تو ہم نہیں پہنچے تو آگے بھی امکان نظر نہیں آتا کہ ہم ایسا گا سکیں ، ان کے استاد نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اس متری سے پوچھو کہ یہ کیا گا رہی تھی ؟ جس کا پوچھنے پر وہ کوئی جواب نہ دے سکی ، تب گرو نے اپنے بالکوں سے کہا بس یہی فرق ہے تم میں اور اس میں ،
وہ کیا گا رہی تھی وہ بتا نہیں سکتی جب کہ تم جو سیکھ لو گے وہ بتا سکو گے ۔
اب جمیل نقش صاحب کی بات کا جو میں مفہوم سمجھا کہ وجدانی علم ہونا ایک رئیر یعنی غیر معمولی معاملہ ہے ۔
جبکہ علم کا ادراک کے ساتھ ہونے کا تعلق انسانی کوشش کے ایسے مثبت اور تعمیری پہلو سے ہے جو اپنے اندر الگ اہمیت رکھتا ہے اور یہ بہت اہم نقطہ ہے جسے فیضی رحمین کی اس پینٹنگ کے حوالے سے بھی دوسرے مضمون میں ڈسکس کیا جائے گا ، لیکن اس وقت جمیل نقش صاحب نے مجھے جو کہا تھا وہ میں نے پلے باندھ لیا اور میں نے اورنامنٹ اسٹائلز کو سٹڈی کیا اور دنیا کے چند بہترین ڈیزائنرز اور آرکیٹیکٹس کے ساتھ ارکیٹیکچرل اورنامنٹ پر کام کیا ۔

بلاشبہ مجھے جمیل نقش صاحب سے بھی بہت کچھ سیکھنے کو ملا ان کا بلوچ کالونی ، جسے کراچی ایڈمنسٹریشن ایمپلائز ہاؤسنگ سوسائٹی بھی کہتے ہیں والا گھر ، ہم چند دوستوں کے کسی مقام پر پہنچنے کے راستے میں آتا تھا جب جمیل صاحب لندن چلے گئے اس گھر کو باہر سے دیکھتے ہوئے اندازہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ اب کوئی اس گھر میں رہ رہا ہے ، سوائے گھر کے مرکزی دروازے کے اوپری بیم پر چھائے ہوئے گھنے بگن بیلا کے درخت میں سے جھانکتی ہوئی دو آنکھوں کے احساس کے ، کس کی ؟
شاید بہت کم لوگ جانتے ہوں کہ جمیل نقش صاحب ایک مجسمہ ساز بھی تھے ۔
جو ان کا کام میں نے دیکھا یہ ارتھ کلر میں بنا ہوا سیمنٹ میں ان کے خاص انداز کی نسوانیت لیے اپنی نزاکت سمیت مضبوط ڈیل ڈول والی عورت کا مجسمہ تھا ۔
جسے انہوں نے مرکزی دروازے کے اوپر درخت کے جھنڈ میں چھپا کر بٹھا دیا تھا اس قدر کہ وہ عام طور پر دروازے میں سے گزرتے ہوئے بھی نظر نہیں آتا تھا ۔

ہم دوست اکثر شام کے وقت باتیں کرتے ہوئے ان کے گھر کے قریب سے گزر بھی جاتے ، تو میں پلٹ کر دیکھتا تو مجھے ہمیشہ اس گھنے تاریک درخت میں سے اس مجسمے کی آنکھیں اپنا تعاقب کرتی ہوئی محسوس ہوتیں ۔

شاہد حسین
25 دسمبر 2021