بیگم عطیہ اور فیضی رحمین
Listen to this article
کوئی کہانی ہمیں کن وجوہات کی بنیاد پر ہمیشہ یاد رہتی ہے؟ عشق محبت میں کامیابی یا ناکامی پر مبنی ہونے شہرت عروج و زوال ،کسی کا بڑا فنکار ہونے کے باوجود پہچان نہ پاسکنا یا المناک موت ! آخر وہ کون سے عناصر ہوتے ہیں جو کسی بھی داستان کو ناقابل فراموش بنا دیتے ہیں؟ شاید اس کا کوئی طہ شدہ فارمولا نہیں ہے۔
آج ہم آپ کو برصغیر انڈوپاک کی مصوری کی دنیا کے ایک ایسے جوڑے کا احوال سناتے ہیں جو اپنے وقت میں شہرت کے حوالے سے مغرب تک جانے گئے اور ان کے ناموں سے آپ بھی یقیناً واقف ہیں ۔
لیکن ان کی زندگی کی کہانی کسی یادگار ناول، فلم یا ڈرامے کے تمام اجزا اپنے مکمل اور اعلیٰ معیار پر پورا اترنے کے باوجود بھلادی گئ یہ تھے سیموئیل فیضی رحمین اور عطیہ فیضی رحمین ۔
ان دونوں میں سے کہانی شروع کس سے جائے؟ چلیئے بیگم عطیہ فیضی رحمین سے شروع کرتے ہیں ۔
عطیہ فیضی یکم اگست ،1877ء میں استنبول میں پیدا ہوئیں اور ان کے والد على حسن آفندی کا تعلق ایک عرب نژاد خاندان سے تھا جو اپنے ایک بزرگ فیض حیدر کے نام کی نسبت سےفیضی کہلاتا تھا۔ یہ لوگ تجارت پیشہ تھے اور تجارتی کاموں کے سلسلے میں بمبئی سے لے کر کاٹھیا واڑ تک پھیل گئے اورعرب ترکی اور عراق کے عمائد اور عوام سے بھی ان کے تعلقات تھے۔ اس خاندان میں علم وادب کا چرچا تھا عطیہ فیضی نے بھی اپنی بہنوں نازلی فیضی اور زہرا فیضی کی طرح استنبول میں اعلى تعلیم پائی اور ترکی، عربی، فارسی، انگریزی، اردو اورگجراتی میں اچھی استعداد پائی اور کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لینے والی وہ پہلی ہندوستانی خاتون تھیں ۔
عطیہ فیضی بڑی خوبیوں کی مالک تھیں ۔ عطیہ کو فنون لطیفہ سے خاص شغف تھا۔ شاعری، مصوری اور رقص و موسیقی یہ سب ان کے ذوق اوردلچسپی کی چیزیں تھیں اور راگ راگنیوں تک سے واقف وہ پاکستان آنے کے بجائے بھارت ہی میں رہتیں اور کوئی کلامندر یعنی فنون کا ادارہ ان کوسونپ دیا جاتا تو وہاں ان کے ذوق اور طبیعت کے جوہر کھل کر کھلتے۔ انگریزی کا مطالعہ خاصا وسیع تھا وہ انگریزی میں رواں اور شگفتہ تقریر کرتیں یوں اپنے حلقے میں وہ اپنی دانشوری کے لیے مشہور تھیں ۔ 1907 میں ہندوستان میں انہوں نے اپنی ڈائری شائع کرنے کا انتظام کیا جو کہ اس دور میں برصغیر میں کسی خاتون کا یہ ایک غیر معمولی عمل تھا۔
عطیہ فیضی کے لکھنے کے انداز نے اس وقت میں محمد اقبال ، شبلی نعمانی ، ابو الاصر حفیظ جالندھری اور مولانامحمد علی جوہر جیسے روشن خیالوں کو بہت متاثر کیا۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کو اس دور میں ملک گیر شہرت مولانا شبلی کی شاعری اور علامہ اقبال کے ساتھ کی گئی خط و کتابت نے بھی عطا کی اور وہ برصغیر کی نامور خواتین میں شمار ہوئیں۔عطیہ فیضی کی بہن نے ان کے محمد اقبال سے متعلق خطوط بعد میں تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ شائع کیئے تاکہ محمد اقبال کے ساتھ ان کی عقیدت سے متعلق ان کے خیالات کی وضاحت دی جاسکے شاید اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی رہی ہوکہ سموئیل فزی رحمین سے ان کی شادی سے قبل مشہور مصنفین شبلی نعمانی اور محمد اقبال کے ساتھ ان کے قریبی تعلق کے بارے میں افواہیں گرم رہتی تھیں ۔ خاص طور محمد اقبال کے ساتھ آج چونکہ محمد اقبال شاعر مشرق کے طور پر جانے جاتے ہیں اور عظیم شخصیات کے عظمت کے معیار ان کے چاہنے والے خود اپنی مرضی سے طے کرتے ہیں جبکہ حقیقت کا ایک رخ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دنیا کا کوئی ذہین ترین مفکر اور فنکار اگر روبوٹ نہیں انسان ہے تو یقیناً وہ اپنے اندر ہر طرح کے جزبات و احساسات اور ان کے باہمی ٹکراؤ اور نتیجتاً ٹوٹ پھوٹ سے بھی گزرتا ہے جس سے پیدا ہونے والی تمام کیفیات اس کی شخصیت کے کسی بھی ظاہری مضبوط سے مضبوط تاثر پر بھی اثر انداز تو ہوتی ہیں خاص طور پر انس لگاؤ پیار محبت عشق،وغیرہ، لیکن اب اس موضوع کے لیے بہت ہی گہرے اور تفصیل طلب تجزیہ کی ضرورت ہے جس کی ابھی یہاں ضرورت نہیں ہے۔
لیکن جو حقیقت تب زبان زد عام تھی کہ عطیہ فیضی اپنے وقت کی پڑھی لکھی اور آزاد خیال خاتون تھیں اور 1926 میں علی گڑھ کی ایک تعلیمی کانفرنس میں انہوں نے خواتین کو پردے میں قید رکھنے کے خلاف آواز اٹھائی وہ خواتین کے حقوق کی بات کرتیں اور ان کے گھومنے پھرنے کی آزادی کے حق میں تھیں اور قدامت پسندوں کو ان کا یہ انداز کسی طور پسند نہیں تھا ۔جبکہ اس دور کی ماڈرن انٹلکچول کلاس کے مردوں میں عطیہ فیضی کے اس مزاج اور خیالات کو پزیرائی دینا لازمی امر تھا ۔اور ان سے تعلق اور اس کلاس کی محافل میں ایسی ذہین خاتون کی موجودگی کسی خوبصورت رومینٹک ایلیمنٹ سے کم نہیں تھی۔اور ایک ایسے ہی جس شخص کو عطیہ فیضی کے اس مزاج اور شخصیت نے بہت متاثر کیا وہ تھےسیموئیل فیضی رحمین ۔اور متاثر ہونے کا یہ عمل بہت جلد محبت میں بدل گیا۔
ایس رامین سیموئیل ،پورٹریٹ فیگریٹو لینڈ اسکیپ اور میورلز ورک کے ہندوستانی مصور ڈرامہ نگار اور شاعر پونا کے ایک مخلوط مذہبی پس منظر رکھنے والے یہودی خاندان میں 1880 میں پیدا ہوئے پہلے اسکول آف آرٹ، بمبئی میں اور پھر چار سال تک لندن کی رائیل اکیڈمی میں جان ایس سارجنٹ اور سولومن جے سولومن کے شاگرد رہے پہلے سارجنٹ کے انداز میں آئیل کلرز میں پورٹریٹ پینٹ کیں لیکن 1908 میں ہندوستان واپسی کے بعد مغل پینٹنگ کی روایت کو بحال کرنے کی کوشش میں جلد ہی آئیل کلرز انداز کو ترک کر دیا۔ 1908-18 سے ریاست بڑودہ میں آرٹ ایڈوائزر رہے خواتین کو مردوں کے برابر حقوق ملنے کے حامی تھے اسی حوالے سے اس دوران ان کی روشن خیالی اور مزاج نے انہیں بیگم عطیہ فیضی سے قریب کر دیا۔
رائل اکیڈمی آف آرٹس فائن آرٹ کا ادارہ ہے جو لندن میں پکاڈیلی پر برلنگٹن ہاؤس میں واقع ہے۔ 1768 میں قائم کردہ یہ ایک خودمختار نجی مالی اعانت سے چلنے والے ادارے کے طور پر ایک منفرد مقام رکھتا ہے جسے چلانے والے نامور فنکار اور آرکیٹیکٹس رہے ہیں ۔
اس ادارے میں پڑھانے والے مشہور مصوروں میں سے ایک ،جان سنگر سارجنٹ (پیدائش 12 جنوری، 1856، فلورنس اٹلی — وفات 15 اپریل 1925 لندن انگلینڈ)، اطالوی نژاد امریکی مصور جن کے خوبصورت پورٹریٹ ایڈورڈین ایج معاشرے کی بہت اعلی تصویر پیش کرتے ہیں۔
انہوں نے تقریباً 900 آئل پینٹنگز اور 2,000 سے زیادہ واٹر کلر کے ساتھ ساتھ لاتعداد خاکے اور چارکول ڈرائنگز تخلیق کیں۔ رائل اکیڈمی آف آرٹس میں پڑھانے کے دوران یہ سیموئیل فیضی کے استادوں میں رہے۔
ایک اور مشہور برطانوی مصور، نیو انگلش آرٹ کلب کے بانی رکن اور رائل اکیڈمی کے رکن تھے۔ سولومن کا خاندان یہودی تھا اور اس کی بہن للی ڈیلیسا جوزف بھی ایک مصور تھی۔رائل اکیڈمی آف آرٹس میں پڑھانے کے دوران یہ بھی سیموئیل فیضی کے استادوں میں سے تھے۔
سیموئل رامین نے دسمبر پانچ ،1912 میں ہندوستانی موسیقی کی ایک اتھارٹی خاندان کی عطیہ بیگم سے اپنی شادی کے بعد یہودیت سے اپنا عقیدہ تبدیل کر کے اسلام اور اپنا نام ایس رامین سیموئیل سے ایس فیضی رحمین رکھ لیا ۔
بمبئی میں رہنے کے دوران بمبئی آرٹ سوسائٹی کے ساتھ نمائش اور گیلری جارج پیٹیٹ پیرس، 1914 میں پہلی یورپی سولو نمائش کی ۔1926-اور 1928- میں امپیریل سیکرٹریٹ نئی دہلی کے لیے پینٹ شدہ فریسکوز پر کام کیا وکٹوریہ اور البرٹ میوزیم میٹروپولیٹن میوزیم نیویارک کے مشرقی حصوں کی تنظیم نو میں مدد کی کئی ڈرامے اور نظمیں بھی لکھیں۔
1947 میں ڈاکٹر فیضی اور عطیہ بیگم قائد اعظم محمد علی جناح کی درخواست پر ممبئی چھوڑ کر پاکستان آکر کراچی میں آباد ہوگئے اور قائد اعظم کی طرف سے انہیں یہاں ایک جگہ بھی دی گئی تاکہ وہ اسے اپنی مصورانہ سرگرمیوں کا مرکز بنا سکیں اب یہ بات ناقابل یقین سی لگتی ہے کہ قائد اعظم کی اس خواہش کو ان کی وفات سے صرف دس برس بعد انتہائی بے دردی سے پامال کر دیا گیا ۔یہ سب کچھ بہت عجیب طرح سے ہوا کہ کراچی میں ان کی طرف سے جو گیلری بنائی گئی اور وہ اپنا کام کر رہی تھی اسی دوران پاکستان کی پہلی مارشل لاء حکومت کے دنوں میں کراچی کے اس وقت کے کمشنر سابق بیوروکریٹ این ایم خان کو وہاں کچھ گڑبڑ کی ہوا لگی تو انہوں نے ڈاکٹر فیضی رحمین اور عطیہ بیگم کو بغیر تحقیق کئے نہایت سفاکی سے ان کے گھر سے بے دخل کر دیا اور اسے گرا دیا ۔ یہ ان میاں بیوی کے لیے تو ایک بڑا صدمہ تھا ہی یہاں کی فن کی دنیا کے لیے بھی یہ ایک بڑا دھچکا تھا جبکہ وہاں کچھ غلط ہونے کے بارے سب افواہیں تھیں جو کہ بے بنیاد تھیں اور کبھی ثابت نہیں ہوئیں اور نہ ہی اس کی کوئی تفصیلات لوگوں کے علم میں لائی گئیں۔ سموئیل نے اسلام قبول کرنے کے بعد ایک مسلمان اور پاکستان کے وفادار کے طور پر شہرت پائی اور ان کی وفا شعار بیوی عطیہ نے مستعدی کے ساتھ خود پر لگنے والے الزامات اور کیس کی پیروی کی اور کیس جیت لیا لیکن پھر وہ کبھی اس جگہ پر واپس نہ گئے جو ان سے چھین لی گئی۔
اپنی زندگی کے بقایا دنوں میں ان ممتاز میاں بیوی کو بے انتہا توہین آمیز رویہ اور دشواری جھیلنی پڑی تھی گھر سے نکال دیے جانے کے بعد ان کے جمع کیے ہوئے نوادرات اور تصویریں تھیلوں اورصندوقوں میں بند ہوگئیں کوئی چارہ نہ پا کر یہ میاں بیوی پڑوس کے ایک تنگ و تاریک ہوٹل میں کمرہ کرائے پر لے کر رہنے لگے ان کا سامان اسی چھوٹے سے کمرے میں ایک ڈھیر کی شکل میں پڑا رہتا اور اس دوران عطیہ بیگم نے ایک ایک کر کے اپنےجواہرات کو بیچنا شروع کر دیا تاکہ زندگی کے اخراجات پورے کر سکیں۔
فنکار حساس ہوتا ہے اس ذلت و بے توقیری اور خراب معاشی حالات میں فیضی رحمین کا ٹوٹ پھوٹ جانا لازمی تھا ۔ وہ اس کسمپرسی اور بیماری میں بالکل گوشہ گمنامی میں چلے گئے ۔اور 22 اکتوبر ، 1964 میں ان کا انتقال ہوگیاان کی گمنامی کا اندازہ اس بات سے لگائیے آئے کہ کسی کو بھی ان کی ٹھیک تاریخ وفات معلوم نہیں ہے۔
22 اکتوبر ایک اندازہ ہے ۔ اس تمام دورانیہ میں سیموئیل فیضی رحمین کے آرٹ کے نمونے جو بھی تھے ان میں سے بہت سا کام تباہ یا چوری ہو گیا لیکن کچھ اب بھی موجود ہیں ۔
ہمارے اپنے آرکائیوز میں ان کی کچھ کتابیں جن میں ان کی بنائی ہوئی تصاویر ہیں اور پاکستان میں کچھ دیگر پبلیکیشنز میں بھی ان کی بنائی ہوئی مغل مضامین کی پینٹنگز موجود ہیں۔
بیگم عطیہ فیضی کے لیے زندگی مزید مشکل ہو چکی تھی بلآخر 1966 جولائی میں بلدیہ کراچی کے ایک اجلاس میں بیگم عطیہ فیضی اور ان کی ہمشیرہ کی خدمات کے صلے میں تاحیات پندرہ سو روپے ماہانہ وظیفہ مقرر کرنے کی منظوری دے دی گئی اور ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی ۔
ایک خوشحال گھرانے میں پیدا ہونے والی اپنی خوبصورت شخصیت میں فنون علم و آدب سے لگاؤ اور اپنی زندگی کے تمام گزرے وقت کے ماضی کو بڑی شان سے گزارنے والی یہ خاتون اپنے آخری ایام انتہائی دکھ تکلیف اور کسمپرسی کے عالم میں گزارنے کے بعد ،30 دسمبر 1966 کو عطیہ بیگم پر فالج کا حملہ ہوا اور پانچ دن بے ہوش رہنے کے بعد 4 ، جنوری 1967 وہ اس دار فانی سے عالمِ جاودانی کو رخصت ہوگئیں ۔
ان دونوں کی وفات کے بعد ان کا گھر یعنی ،فیضی رحمین گیلری فن مصوری کے شائقین کے لئے کچھ مدت تک کھلا رکھا گیا تاکہ وہ ان کے فن کا بچا کچھا مجموعہ دیکھ سکیں اور یہ سلسلہ 1990 کی دہائی تک جاری رہا اور پھر اس آرٹ کے مجموعہ کو کسی دوسری جگہ محفوظ کر دیا گیاکیونکہ ان کی زمین پر ایک ثقافتی مرکز اور گیلری کا دوبارہ منصوبہ بنایا گیا لیکن آج تک یہ اپنے اصل مقاصد کے حوالے سے مکمل ہو سکا ہے یا نہیں اس پر کچھ معلومات اکٹھی کر کے آپ سے دوبارہ شیئر کی جائیں گیں ۔ یا پھر فیضی رحمین صاحب کی مصوری پر بات ضرور کریں گے ۔
شاہد حسین ۔
18 دسمبر 2021 ۔